بےشک قرآن پاک راہ ہدایت ایک ذندہ جاویدکتاب ہے

 


قرآن کریم ہر دور میں رہنمائی کےلیے ایک زندہ جاوید کتاب ہے

یہ 2011ء کی بات ہے، اس وقت میں نواب شاہ (سندھ) میں ہوتا تھا، ایک قصبے میں مرد کسی شادی پہ گئے ہوئے تھے، ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رات کے اندھیرے میں چوروں نے گھر کی دیواریں پھلانگ دیں اور قیمتی اشیاء میں بطور خاص ایک بھینس، موٹر سائیکل اور موبائل لے اڑنے میں کامیاب ہوئے، صبح جب مرد گھر آئے، بڑی مشکل سے پرانی روایات کے مطابق کہیں تک چوروں کی پیروں کے پَلوں کا تعاقب کرتے رہے لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، کسی اللہ والے کو ایک آئیڈیا سوجھی۔ اس نے ایک مشورہ دیا کہ چور گھر سے جو بھی موبائل لیکر گئے ہیں اس پر رابطہ کرکے ان سے صرف سِم طلب کی جائے، اس کے بدلے میں اگر وہ پیسے بھی ڈیمانڈ کریں تو آدائیگی سے دریغ نہ کیا جائے، چنانچہ بڑی مشکل سے چوروں کو تین ہزار روپے کی عوض اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ ہمیں صرف سِم ہی کسی طریقے سے دلوائیں، طے پایا کہ فلان شخص کے پاس سِم رکھ کر اپنے تین ہزار وصول کرلیں۔ اس شخص سے کہا گیا کہ وہ سِم کو ہاتھ سے ہرگز نہ چھوئیں، ہدایات کے مطابق اس سِم کے ذریعے چوروں تک بآسانی رسائی حاصل کی گئی جو متاثرہ گھر والوں کے قریبی رشتہ دار تھے۔ طریقہ یہ اپنایا گیا کہ اس سِم کو جن لوگوں نے آخری مرتبہ ہاتھ لگایا تھا، نادرا ڈیٹا کی مطابق اس کی نقشِ انگشت کے ذریعے کاروائی عمل میں لایا گیا۔ حالانکہ یہ سمارٹ فون اور بائیو میٹرک سسٹم کے بالکل ابتدائی ایام تھے، آج کل سائسنی ترقی کی تیز رفتاری کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے کسی مجرم کے خلاف ثبوت حاصل کرنا یا مشکوک کو مجرم ثابت کرنا، آسان کام نہ تھا۔ لیکن انسانی عقل کی تدریجی سفر میں سائنس نے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ ”نقش انگشت“ (Finger Prints) انسان کی شناخت کےلئے استعمال کیا جاتاہے، کسی مجرم کی تلاش ہو یالاوارث مردہ کی تصدیق، سب ”نقش انگشت“ کے طرز شناخت کی بدولت منٹوں، سیکنڈوں کا کام ہے۔

صرف یہی نہیں، اب تو یہ جدید طرزشناخت، مختلف تعلیمی اداروں اور دیگر بےشمار اداروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہےکہ نقش انگشت سے انسان کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے؟

قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:

اَيَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَهٗؕ‏ ۞ 

ترجمہ:

کیا انسان نے گمان کررکھا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر پاویں گے؟

بَلٰى قٰدِرِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡ نُّسَوِّىَ بَنَانَهٗ ۞ 

ترجمہ:

ہاں، ہم جمع کریں گے اس طرح کہ اس کے پور پور کو ٹھیک کردیں گے۔

مشہور عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی کتاب ”خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک”میں نقش انگشت کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

"انسان کی انفرادی شناخت کے متعلق قرآن پاک خاص طور پر انگلیوں کے پوروں کا ذکر کس لئے کرتا ہے؟ 1880ءمیں سرفرانسس گولٹ کی تحقیق کے بعد نقشِ انگشت (Finger Prints) لوگوں کی پہچان کا سائنسی ذریعہ بن گیا۔ دنیا کے کوئی سے دو اشخاص کبھی بھی مکمل طور پر ایک جیسے نقشِ انگشت کے حامل نہیں ہو سکتے حتی کہ ہم شکل جڑواں بھائی بھی۔ اسی بنا پر پوری دنیا میں پولیس والے مجرموں کی شناخت کے لیئے نقشِ انگشت استعمال کرتے ہیں۔ چودہ سو سال پہلے ہر انسان کے نقشِ انگشت کی انفرادیت کا علم کس کو ہو سکتا تھا؟ یقینا یہ علم خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔“

سر فرانسس گولٹ کے بقول انہوں نے اس تحقیق کےلیے ہزاروں کتب کی لاکھوں صفحات کھنگالنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآن میں انگلیوں کی پوروں کی بتخصیص کیوں ذکر ہے؟ یہیں سے مجھے رہنمائی ملی، میں نے ابتدائی تحقیق کےلیے ایک کاغذ پر سو کے لگ بھگ لوگوں کی فنگر لی، ان میں فرق پایا تو تعداد بڑھاتا رہا، یہاں تک کہ برطانوی پولیس کی حکم پر مجرموں کے شناخت کرکے پکڑنے کےلیے میں نے یہ امتیازی خصوصیت میں فرق واضح کیا،  فنگر پرنٹ پر غور و فکر کے بعد یہ بآسانی ثابت ہوتا ہے کہ دو انسانوں میں شکل وصورت میں ضرور مشابہت ہو سکتی ہے حتی کہ دو آدمی مکمل طور پر ایک جیسے ہوں تو یہ عین ممکن ہے لیکن دو انسانوں کے نقشِ انگشت یعنی فنگر پرنٹ ایک جیسے ہوں، یہ بالکل ممکن نہیں۔

نقشِ انگشت انسان کی انفرادی شناخت کا واحد بہترین ذریعہ ہے، اس حقیقت کا اشارہ ہمیں قرآن پاک کی آیات سے ملتا ہے اور غور و فکر کے بعد سائنس دانوں نے اس حقیقت کو بذریعہ تحقیق وتجربات (اللہ کے حکم سے) ثابت بھی کیا اور آج عملی طور پر نت نئی مشینری وآلات کی بدولت تقریبا ہر جگہ اس طرز کو زیر استعمال لایا گیا ہے۔

صرف یہ بھی نہیں اب تو محض ایک انگوٹھےکانشان ہی سیکنڈوں میں انسان کی پہچان کروا دیتا ہے۔

قرآن حکیم ہر دور میں ایک زندہ کتاب ہے، افسوس مسلمان صرف جھاڑ پھونک اور مردے بخشوانے کی غرض سے اسے گھر میں رکھتے ہیں۔

(اسماعیل حسنی)

Post a Comment

0 Comments