صحت سےبڑھ کرکچہ نہیں اپناخیال رکہیں تاکہ آپ اچہی ذندگی گزارسکیں


 آج سے بیس سال پہلے تک بریسٹ (چھاتی) کا کینسر پچاس سالہ یا اس سے اوپر کی خواتین میں زیادہ دیکھتے تھے۔ 

اس وقت ہمارے (کینسر کے ڈاکٹروں کے) پاس آنے والی بریسٹ کینسر سے متاثرہ خواتین میں سے لگ بھگ آدھی چالیس سال سے کم ہیں۔ بہت سی تو بیس کے پیٹے میں ہیں یعنی بالکل جوان بچیاں۔ 

آخر کیا وجہ ہے کہ جو بوڑھوں کی بیماری سمجھی جاتی تھی وہ اب جوانی میں حملہ آور ہونے لگی ہے؟ پاکستان کی ہر نو میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہو گی، موجودہ اعداد و شمار ایسا کہتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ جس تیزی سے پھیل رہا ہے یہ نمبر نو سے کم ہو کر سات ہو جائے گا۔ 

وجوہات پر اسٹدیز کم ہیں اور جو ہیں ان کے نتائج بھی متنازعہ سے ہیں۔ جینیات، آلودگی، ورزش نہ ہونا، ناقص غذا (ماڈرن جَنک فُوڈ)، یہاں تک کہ بہت سے سوچتے ہیں کہ موبائل ریڈی ایشن بھی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں کیسز بڑھنے کی۔ اس پر پاکستان میں ماہرین کو سر جوڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی شرح سے کیسز میں اضافہ ہوتا رہا تو ہمارا سسٹم اس سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ 

پہلی اسٹیجز میں یہ مرض بالکل قابل علاج ہے۔ لیکن ہمارے پاس خواتین کیس خراب ہو چکنے کے بعد آتی ہیں۔ جو بروقت آ بھی جائیں ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہوتے۔ کارڈ شارڈ اس وقت جتنے موجود ہیں وہ زیادہ کومپنی کی مشہوری ہی ہیں ان سے کینسر کے مریضوں کو عملی فوائد کم ہی ہو رہے ہیں (مریضوں کی شرح اموات اس کا ثبوت ہے، اگر کوئی نمبر گیم میں جانا چاہے تو خوشی سے جائے)۔ 

اپنے ارد گرد خواتین کو کانفیڈینس دلائیے کہ اگر چھاتی میں کوئی منفی تبدیلی محسوس کریں تو چیک اپ سے نہ جھجکیں۔ حکومت و ریاست سے نا امید رہیے اور اپنی سی کوشش کر کے کسی بھی آزمائش کے لیے رقم اور ہمت جوڑ کر رکھیے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ دعا کرتے رہیے کیونکہ یہ چیز بھی زلزلے یا قدرتی آفت ہی کی طرح بغیر وارننگ کے آ پکڑتی ہے۔ 

-Dr. Uzair Saroya

Post a Comment

0 Comments