سبق آموز


 *خواتین کیلئے خصوصی تحریر*

میں پاگل ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ میری شکل دیکھو میں بھکارن بن گئی ہوں ، تھک گئی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پاس بیٹھ کر بولا:

تُو ہر وقت جھگڑتی رہتی ہے کبھی تو پیار سے بات کر لیا کر میرے ساتھ ۔

میں نے اسے سائیڈ پہ دھکا دیا ، وہ خاموش ہو گیا ۔

میں تھک ہار گئی تھی ، اب سوچ رہی تھی بس اس سے طلاق لے لوں گی ، اپنے ایک دو کزن سے بھی بات کی تھی جو وکیل تھے ، انھوں نے تسلی دی کہ ہم ساتھ ہیں آپ کے طلاق لے لو اس کمینے سے ۔ میں سوچ رہی تھی آج گھر آئے گا تو بس اس کو بول دوں گی طلاق دے دو مجھے ۔

میں انتظار کر رہی تھی ، وہ رات 10 بجے آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے سو رہے تھے ، دونوں بچوں کے ماتھوں پر اس نے بوسہ دیا ، ان کے ہاتھ چومے ، پھر چارپائی پہ بیٹھ کر مجھے آواز دی:

شہناز مجھے روٹی دے !

میں کروٹ بدلے لیٹی رہی ، اس نے پھر آواز دی ، شہناز ! سن لے ، اٹھ جا۔۔۔۔

میں چپ رہی ، وہ پاس آیا مجھے دیکھا ، میں نے آنکھیں بند کر لیں ؛ مجھ پہ کمبل اوڑھا کر بولا: تھک جاتی ہے سارا دن ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچن میں گیا ، کھانا دیکھنے لگا ، کچھ بھی نہیں تھا کھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک پیالی میں نمک مرچ ڈال کر اس میں تھوڑا پانی ملا کر سوکھی روٹی کھانے لگا ، میں دیکھ رہی تھی ، میں دل میں سوچنے لگی: یہ مرتا بھی نہیں ہے ، وہ کھانا کھا کر سو گیا ۔

دوسرے دن صبح صبح ہم کسی بات پہ جھگڑنے لگے ، میں نے اسے کہا:

بس مجھے طلاق دے دو میں اب برداشت نہیں کر سکتی ، میں تھک گئی ہوں ، غصے میں مَیں نے اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے ؛ وہ طلاق کا نام سنتے ہی چپ ہو گیا ، جلدی سے کپڑے چینج کرنے لگا ، پھر بائیک لی اور باہر جانے لگا ۔

میں نے چلا کر کہا:

اللہ کرے تو مر جائے ، میری جان تو چھوٹ جائے تم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بائیک باہر کھڑی کر کے کمرے میں گیا ، کسی کاپی پہ کچھ لکھا ، چلا گیا ۔

میں گالیاں دے رہی تھی ، رو رو کر تھک گئی تھی ، اسے بدعا دے رہی تھی ، میں نے ارادہ کر لیا تھا بس اب اس انسان کے ساتھ نہیں رہنا ۔

دو چار گھنٹے گزرے ، اور میں میکے جانے لگی ، بچوں کو ساتھ لے لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں گلی میں ایک شور سا برپا ہوا ، میں رو رہی تھی ، ہمارے دروازے پہ دستک ہوئی ، میں نے دروازہ کھولا ، پورا گاؤں چارپائی اٹھائے میرے دروازے کے سامنے کھڑا تھا ، میں حیران تھی کیا ہوا ۔۔۔؟


اتنے میں ایک لڑکا فون پہ بات کر رہا تھا ، یار اکبر کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ مر گیا ہے ۔

یہ سنتے ہی جیسے مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ، میں ساکت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ چارپائی صحن میں رکھی گئی ، سب لوگ قبر کھودنے کی بات کرنے لگے ، کچھ جنازے کا ٹائم دیکھنے لگے ، مسجد میں اعلان ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اکبر میرے سامنے چارپائی پہ لیٹا ہوا تھا ، کون یقین کرے وہ مر چکا ہے ؛ میں چیخنے چلانے لگی:

اکبر اٹھ جا ، میں نہیں کچھ مانگتی ، مجھے کچھ نہیں چاہیے ، میں طلاق کی بات بھی نہیں کرتی


میں اس کے پاؤں چومنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اکبر اٹھ جا میری جان اٹھ جا ، دیکھ ، دیکھ میں کہیں نہیں جا رہی ، مجھے تیرے ساتھ ہی رہنا ہے ؛ میں بھوکی پیاسی رہ لوں گی ، مجھے یوں چھوڑ کر نہ جا ۔۔۔۔۔۔ میں کھانا بنا کر لاتی ہوں ، بھوک لگی ہے نا تم کو ۔۔۔؟؟

لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ، اب وہ مجھے چھوڑ کر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چیختی چلاتی رہی لیکن وہ منوں مٹی تلے جا سویا ۔

اس کے جانے کے بعد مجھے دنیا کے رنگ نظر آنے لگے ، مجھے رشتے بدلتے دکھائی دینے لگے ، پھر جو اپنے تھے وہ سب منہ موڑنے لگے ، مجھ پہ دنیا نظریں کسنے لگی ، بچے بابا ڈھونڈنے لگے ، اب کون ان کا نیند میں آ کر ماتھا چومے گا؟؟

کون مجھے آواز دے گا ، کون میرے تلخ لہجے برداشت کرے گا۔۔۔؟

مجھ سے مکان چھین لیا گیا ، جو حصہ بنتا تھا وہ بھی نہ دیا ، میں اکبر کے بعد در بدر ٹھوکریں کھانے لگی ۔

اب بچے بھی کچھ فرمائش نہیں کرتے ، وہ جانتے ہیں بابا اب نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سگے بھائی بھی منھ موڑ گئے ، میں لوگوں کے گھروں میں نوکرانی بن کے کام کرنے لگی ۔

ایک دن مجھے اس کی ڈائری ملی ، جس پہ لکھا تھا:

شہناز سے شادی کر کے بہت خوش ہوں ، شہناز سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔

وہ پاگل ہے بلکل سمجھتی ہی نہیں جھگڑتی رہتی ہے ، دیکھو آج اس نے مجھے کھانا نہیں دیا ۔

وہ کہتی ہے: مہنگا موبائل لا کر دو ، اسے کیسے بتاؤں نہیں لا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !

آج میرے بچوں کو میرے بھائی نے گالی دی ، میں بہت رویا ہوں میرے بچے میری جان ہیں ۔۔۔

شہناز کو بخار ہے وہ بیچاری میرے لیے کیا کچھ برداشت کر رہی ہے ، اللہ نے چاہاتو ہمارے حالات بدل جائیں گے ، پھر شہناز کو دنیا کی ہر خوشی دوں گا ؛ اب وہ مجھے کھانا نہیں دیتی ، میں جانتا ہوں ناراض ہے مجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے نمک مرچ کےساتھ سوکھی روٹی کھائی ہے ، آج میری کمر میں اینٹ لگی ہے ، زخم بہت گہرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہناز کو نہیں بتاؤں گا وہ پریشان ہو جائے گی بیچاری ۔

ڈاکٹر کہہ رہاتھا 15 ٹانکے لگنے ہیں ، آج مجھے چوٹ لگی ہے ، کہہ رہی ہے طلاق دے دو ، میں مر جاؤں گا اس کے بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی غصے میں ہے ٹھیک ہو جائے گی ۔ میں ڈائری کو سینے لگا کر چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔


ہمسفر تو ہمسفر ہوتا ہے نا ، وہ جیسا بھی تھا میرا سایہ تھا ، میری ڈھال تھا ، اس کے بعد زمانے کی ٹھوکریں کھا کر سمجھی ہوں اس کے ساتھ میرے دونوں جہاں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تھک ہار کر گھر آتی ہوں ، اب ٹوٹ گئی ہوں ، میں بچوں کی خاطر زندہ ہوں بس ؛ ورنہ کب کی ختم ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔

میں خود کو اذیت دیتی ہوں ، کیوں جھگڑتی تھی اس کے ساتھ ، کیوں اس کو ستاتی تھی ، کیوں میں لوگوں کو دیکھ کر بڑے خواب دیکھتی تھی ، وہ میرے ساتھ ہوتا تو کیسی زندگی گزار رہی ہوتی ۔

کیا میں بخشی جاؤں گی ۔۔۔؟؟

اللہ مجھے معاف کرے گا ۔۔۔۔ ؟

میں مشکل وقت میں اس کا سہارا ، اس کی ہمت نہ بن سکی ؛ میں مطلب پرست لالچی ہو گئی تھی ، اب تو اکثر لوگ میری مدد کرتے ہوئے میرے جسم کی بات بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

سب عورتوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ پیسہ ہمسفر کے سامنے خاک بھی نہیں ہے ، لالچ اور بڑے بڑے خواب کی تمنا میں لوگوں کی نوکرانی نہ بن جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوہر اگر ایک وقت کی روٹی بھی کھلائے تو مسکرا کر سینے سے لگ جانا ، خدا کی قسم زمانے کی لاکھ تلخیوں کو وہ تمھاری خاطر اپنے سینے پہ برداشت کرتا ہے ، پلیز اگر کوئی بہن اپنے شوہر سے بیزار ہے تو وہ سمجھ جائے ۔۔۔‌‌‌‌۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ آنسو اس کا مقدر بن جائیں ۔ ۔ ۔

Post a Comment

0 Comments