ایک دکہ بھری پیاری سےداستان


 “آج پھر تو گلاب کا پودا لے آئ؟؟ کتنی بار سمجھایا ہے ،تیرے ابا کو نہیں پسند گلاب”۔

اماں نے ناک سکوڑ کر اس کو تنبیہ کی۔

“مگر کیوں اماں؟ گلاب تو پھولوں کا بادشاہ ہے۔ پھر؟”

اس نے پھر وہی گھسا پٹا سوال دہرایا  جس کا جواب شاید اماں کو بھی نہیں پتا تھا۔

“بس زیادہُ بحث نہ کر۔ ابھی ہٹا اس کو گھر سے۔ آنے والا ہوگا تیرا ابا بس۔ یہ سب  چونچلے اپنے سسرال جا کر کرنا۔ یہاں تیرے ابا کا حکم چلتا ہے بس۔”

یہ کہ کر اماں تو چلی گئ۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح یہ حکم کیوں چلتا ہے کی گتھی سلجھانے میں الجھ گئ۔ 

اس کو بچپن سے گلاب کے پھول سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ وہ اپنے پورے گھر کو ان پودوں اور خوشبؤں میں محسوس کرنا چاہتی تھی۔ مگر جانے ابا کو کیا چڑ تھے اس کے گلابوں سے

اس کی شادی کو ایک سال ہو چکا تھا اور وہ اس گھر کو پوری طرح اپنا چکی تھی۔ سب کے دل جیتتے جیتتے وہ اپنا آپ ہار چکی تھی۔ آج گلی سے پھول والے نے آواز لگائ تو وہ بری طرح بے چین ہوکر بچوں کی طرح دوڑی تھی۔ اس نے خوب سارے گلاب خریدے اور نہایت سلیقہ مندی سے برآمدے میں سجاد ہے۔وہ بالآخر بہت خوش تھی۔

اس کے کمرے کاُدروازہ زور سے کھلا تھا اور اس کا شوہر آنکھوں میں غصہ لئے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ وہ سہم گئ تھی۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی اس کا شوہر اس پر برس پڑا تھا۔ 

“تم نے کس کی اجازت سے گھر میں یہ جھاڑ لگائے ہیں۔؟”

وہ ششدر رہ گئ۔

“مگر یہُ گلاب ہیں۔ جھاڑ نہیں۔ کیا یہ میرا گھر نہیں؟ “دو آنسو اس کی پلکوں کو چھوڑکر وہیں تھم گئے تھے۔

“ابا کو بالکل نہیں پسند یہ پھول پودے۔ ان سے گھر میں کچرا ہوتا ہے۔ اور کیچڑ الگ”

“مگر میں صفائ کا خیال خود رکھو گی۔ وعدہ ہے میرا۔”

“چپ کرو۔ بے کار بحث نہ کرو اور یہ سب پودے ساتھ والے پارک  میں رکھ آؤ۔ کوئ لےُجائے گا۔ “

وہ ایک بار پھر حیران ہوئ تھی۔ بھلا گلاب بھی کوئ ناپسند کرتا ہے؟ اور پلکوں پر ٹھہرے آنسو لڑی بن کر اس کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئے اس کی گود میں کہیں جزب ہوگئے تھے۔وہ جی اچھا کہ کر گلاب باہر رکھنے چلی گئ تھی۔

آج وہ پہلی بار اپنے بیٹے کے گھر آئ تھی۔ اب وہ ایک بیوہ تھی او ریہ گھر اس کے بیٹے نے اپنی محنت کی کمائ سے بنایا تھا۔ نہایت محبت سے اس کا بیٹا بہو اسے اس گھر میں لاۓ تھے۔ وہ اس محبت پر خوش اور رب کی شکر گزار تھی۔  آج وہ صدیوں بعد پرسکون سوئ تھی۔

اگلی صبح ناشتے کی میز پر اس کا بیٹا اس سے گویا ھوا۔ “

“اماں یہ بالکونی میں گلاب آپ نے لگائے ہیں؟ “

وہ بھرپور اعتماد سے بولی۔ “ہاں بیٹا۔ کتنے خوبصورت لگتے ہیں نہ؟”

“جی امی۔ مگر ان کی وجہ سے  گھر میں مچھر ہوجاتے ہیں۔ اور بیگم کو ان کی خوشبو سے الرجی ہے۔ میں یہ سب ہٹوا رہا ہوں۔ آپ برا نہ منائیے گا۔ 

اور ایک بارپھر وہ اثبات میں سر ہلا کر رہ گئ۔

آج وہ اپنی قبر میں اتاری گئ تھی۔ وہ دنیا کے تمام جھمیلوں سے دور منوں مٹی تلے ابدی نیند سو چکی تھی۔ آج سب اس کی قبر پرگلاب ڈال رہے تھے۔ اور ایک کونے میں کھڑا اسکا ۱۰ برس کا پوتا کچھ سوچ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور گویا ہوا۔ “دادی آج میں آپ کے لئے ایک تحفہ لایا ہوں۔ “

اور اس نے ایک گلاب کا پودا اس کی قبر پر لگا دیا۔ سب حیران تھے کہ یہ بچہ کیا کررہا ہے۔ مگر وہ منوں مٹی تلے ایک دم پرسکون ہوگی تھی۔ کیونکہ یہ وہ واحد گھر تھا جہاں اور کسی کا حکم نہیں چلنا تھا۔

Post a Comment

0 Comments