بواسیرایک خطرناک اورتکلیف دہ بیماری ہےاسکابوقت علاج کریں تاکہ آپ آگےتکلیف سےبچ سکیں

 


بواسیر سے شرمانا نہیں ہے ۔۔۔۔ 

امی بستر علالت پر تھیں تو انہیں کوئی بھی تکلیف ممکنہ طور پر ہو سکتی تھی ۔۔ جس میں بیڈ سور سے لیکر کوئی بھی۔ مگر اس دوران امی کو Piles یعنی بوا سیر نے گھیر لیا۔

 اس سے پہلے انہیں بیڈ سور کا شبہ ہوا تو ہم نے امی کو ان کور رکھا اور ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیا اور محض 48 گھنٹوں میں اس زخم پر قابو پا لیا۔

 امی کی بیک سائیڈ پر ہیپ والی جگہ پر خشکی تھی اور جب امی کو انیمیا دیا گیا تو لگاتار اسٹول پاس کرنے کی وجہ سے وہ اسکن گیلی ہو کر اتر گئی اور زخم بن گیا۔ میں نے ایمرجنسی میں اتفاق ہسپتال dermatologists

 کے لیے بات کی تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر عائشہ رفیق نے کال دے دی۔

 ڈاکٹر آئے انہوں نے اچھی طرح چیک کیا اور کلئیر کر دیا کہ یہ سوپر فیشل ہے اندر تک نہیں ہے مگر اسے قابو نہ پایا گیا تو یہ خطرناک بیڈ سور بن سکتا ہے اور پھر میں نے اور عفیفہ نے 48 گھنٹوں میں اسے کور کیا۔

 ہم ایک گھنٹے کے بعد اسے پائیو ڈین سے صاف کرتے ۔ائینمنٹ اور کریم ہر چار گھنٹے کے بعد لگانی تھی۔ میں نارمل سلائین سے صاف کرتی اور پائیو ڈین لگاتی۔ 

اسی دوران امی کو گھر منتقل کیا تو تیسرے دن امی کو بواسیر کی bleeding شروع ہو گئی ۔ امی کا تکلیف سے برا حال ہو گیا ۔ 

امی کو پچاس سال پہلے بواسیر ہوئی تھی تو دادا جی نے امی کو چولائی کے ساگ کا است نکال کر پلایا تھا پھر امی کو کبھی تکلیف نہیں ہوئی مگر اس بار ہوئی تو انتہائی شدید 

 امی کو پھر ہسپتال منتقل کیا گیا  ۔ پہلے سرجری یونٹ سے جس ڈاکٹر نے دیکھا وہ چیک کرنے سے ہچکچا رہا تھا میں نے ایک ہی جملہ کہا

The patient has no gender

اس نے دیکھا اور کہا کہ آپریشن ہو گا۔ مگر حتمی فیصلہ ہیڈ آف سرجری کریں گے ۔

ہم آپریشن کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے جب اگلے دن ڈاکٹر علی ثقلین حیدر آئے تو میں نے کہا کہ آپریشن نہیں ہو گا انہوں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سر دیکھ لیں پھر فیصلہ کرتے ہیں ۔ مگر تب تک آپ لوگ انہیں گرم پانی کی ٹکور دیں پائیو ڈین ڈال کر ۔

دوپہر تک سئینر سرجن آئے انہوں نے امی کو چیک کیا تو مجھے کہا کہ بیٹا ناں میں مریض کو آزمائش میں ڈال سکتا ہوں نہ آپ کو۔ فور گریڈ کی Piles Infection ہے جس میں آپریشن ہی ہوتا ہے مگر ہم زرا ٹائم لیں گے انہیں کریم۔۔۔ انجکشن اور میڈیسن سے کور کریں گے اور Sitz bath  ہو گا اور ساتھ انہیں کولڈ اور ہیٹ مساج دیا جائے گا ۔ 

ان کے مشورے پر علاج شروع ہو گیا Sitz bath  کے لیے میں اور موحد جا کر چھوٹا سا سویمنگ پول بھی لے آئے اور امی کو باتھ دیا جسے امی نے بھرپور انجوائے کیا۔ 

مگر دماغ یہاں پر مجھ سے اڑ گیا کہ کوئی اور حل بھی ہو گا ۔ ڈاکٹروں کا بتایا ہوا علاج جاری تھا۔

میں نے گوگل پر سرچنگ شروع کی تو کچھ انگلش آرٹیکل سامنے آئے ۔۔۔ جو کہ انتہائی مفید ثابت ہوئے کیونکہ ان کے طریقوں کو میں نے مکمل طور پر سرچ کیا تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ گورا آپریشن کو پہلا اور آخری حل نہیں سمجھتا وہ آپشن استعمال کرتا ہے ۔

اس میں Sitz bath شامل تھا تاہم اگر مریض اس کنڈیشن میں نہیں ہے کہ باتھ لے سکے تو اسے بستر پر کیسے کور کر سکتے ہیں ۔ 

ہیٹ نہیں بلکہ کولڈ پیچ سے ٹکور دیں۔ یہ پاوچ ہیٹ اینڈ کولڈ کے نام سے ساڑھے تین سو تین سو پینتالیس روپے کا مل جاتا ہے ۔ ڈیپ فریزر میں رکھ کر ٹھنڈا کریں اور متاثرہ حصے کو ٹکور کریں ۔ اس سے رگیں سکڑنے کا عمل تیز ہو گا۔ 

اہم ترین ناریل کا تیل یا پھر کوسٹر آئل جسے ارنڈی کا تیل بھی کہتے ہیں ۔ ناریل کا تیل درد کش ہوتا ہے۔ اچھی کوالٹی کا حامل ناریل ک تیل تو مل گیا مگر کوسٹر آئل نہیں ملا کیونکہ میں لوکل کمپنی کا استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ میں نے اپنے ہاتھ کو اچھی طرح سے دھویا۔  سینیٹاز کیا اور پھر اس کی ایک مخصوص شیپ بنا کر اس میں تیل ڈالا اور امی کے متاثرہ حصے پر رکھ دیا ۔ 



تیل جذب ہوتا رہا۔۔ اس سے پہلے کولڈ پیچ کی ٹکور دی۔۔کمرے میں فریج تھا اور میں نے پاوچ اس میں رکھ دیا تھا۔عفیفہ کو بھی بتایا اس نے بھی یہی کیا۔ امی کو ڈسچارج کیا گیا ۔ ایک ہفتے پہلے امی کو پھر ہسپتال منتقل کیا گیا جب میرا ڈبل ون ڈبل ٹو سے پھڈا پڑا تھا ۔

تب  ہم نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ امی کی Piles Infection ختم ہو گئی تھی اور امی بھی خوش تھیں کیونکہ اس کی درد ناقابلِ برداشت ہوتی ہے ۔

میں نے سلف میڈیسن کا سہارا نہیں لیا بلکہ محفوظ راستے تلاش کئے جن میں Sitz Bath ۔۔۔ کولڈ تھراپی ۔۔۔ ناریل کا تیل یہ سب ضرر سے اشیاء ہیں مگر اس کا استعمال کافی زیادہ فائدہ مند ہے ۔

سرچ اور پڑھنے کی عادت نے مجھے یہ شعور دیا کہ درد اور تکلیف کو کم کرنے کے راستے کیسے ڈھونڈنے ہیں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اگر آپ Piles کا شکار ہیں تو ان طریقوں پر عمل کرنا شروع کریں اور دعاؤں میں یاد رکھئیے ۔


Post a Comment

0 Comments