دکھ بھری کہانی جہاں ایک بہاٸ نےایک بہن کودہوکےمیں رکہاجواس دھوکےسےانجان تھی

 


دھوکا 

سلائی مشین پر جھکی ہوئی وہ بہت دیر سے سوئی میں دھاگہ ڈالنے کی  کوشش کر رہی تھی۔

لالٹین کی دھیمی روشنی میں اس کا ہیولہ کچے دیوار پر عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا.سردی سے ان کے ہاتھ کپکپا رہے تھے بہت مشکل سے وہ دھاگہ ڈالنے میں کامیاب ہوئی۔رات کے سناٹے میں مشین کی کھر کھر کی آواز بلند ہوئی۔ سلائی مشین کے شور میں جھینگروں کی سیٹیاں دب سی گئیں۔کتوں کی بھونکنے کی آوازیں مدھم پڑ نے لگیں۔یہی دو جوڑے رہ گئے تھے جس کے بعد اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جانی تھی۔کتنے تکلیف دہ لمحات ہوتے جب وہ شادی شدہ ہمجولیوں کے بالیوں کو حسرت سے تکا کرتی۔ان کے ہاتھوں میں سونے کی چوڑیوں کو دیکھ کے اپنی قسمت پر کڑکتی رہتی۔لیکن اب ساری محرومیوں کا ازالہ ہونے والا تھا۔

ایک ایک پیسہ جوڑ کے وہ آج اس قابل ہوئی تھی.کہ اپنے لئے سونے کا کچھ زیور خرید سکتی تھی۔

ان کا نصیب برا تھا ۔ شکل بری تھی یا شاید جوڑے بنانے والے نے انکا جوڑ بنایا ہی نہیں تھا۔ جوانی کب کی ڈھل چکی تھی۔ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت سے بچپن میں ہی محروم ہو گئی تھی۔ایک بھائی اور بھابھی کا ہی آسرا تھا ۔بھابھی کو شروع شروع میں ان کی سلائی کڑھائی سے بھلا کی چڑ تھی ۔روزانہ سر کو چادر سے باندھ کے سر درد کی شکایتیں کرتی۔مگر جب بھائی بے روزگار ہوا تھا۔

تو اس نے ہی سلائی کے پیسوں سے گھر کےگرتےہوئے نظام کو یوں سہارا دیا۔کہ بھائی کے ساتھ ساتھ بھابھی بھی اسکی گرویدہ بن گئی۔سلائی مشین کی آواز سے اب انہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔  بلکہ اپنے رشتہ داروں کو بھی انکی نفیس سلائی کی تعریف کرنے لگی تھی۔دیکھتے دیکھتے اس کا کام بڑھنے لگا۔ دن رات کی محنت کا یہ ثمر تھا ۔کہ ان کے خواب کو تعبیر ملنے والی تھی۔

صبح ناشتے کے بعد  اس نے جمع کئے ہوئے مڑے تڑے نوٹ پرانے صندوق سے نکال کے بھائی کےحوالے کئے۔چند دنوں بعد ایک پیارا سا سونے کا ہار اس کے گلے کا زینت بن گیا۔خوشی سے اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔روزانہ ہلکا سا میک اپ کرکےآئینے کے سامنے بیٹھ جاتی   ہر زاویے سے خود کو تکا کرتی۔ کچھ کمی نہیں تھی اس میں شہزادی ہی تو لگ رہی تھی۔بس اسکےشہزادےکی نظر پڑنے کی دیر تھی پھر اس کا بیڑا پار ہونے والا تھا۔

انہیں بہت اچھا لگتا جب گاوں کی عورتیں اس کے خوبصورت ہار کی تعریفیں کرتیں انہیں مبارکبادیں دیتیں۔رشک بھری نگاہوں سے ہار کو تکا کرتیں۔اپنی خوش بختی پر نازاں وہ گاوں بھر میں  اتراتی پھیرتی تھی ۔لیکن خوشیوں کا یہ دور زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔

اس کا اکلوتا بھائی شدید بیمار ہوا۔دن بدن  اس کا مضبوط وجود کمزور سے کمزور  ہونے لگا۔

 بنوں کےڈاکٹروں سے نہ مرض کی تشخیص ہو سکی اور نہ قسم قسم کی دوائیوں سے افاقہ نصیب ہو سکا۔ مجبورا انہیں پشاور لے جایا گیا ۔جہاں پر مرض کی تشخیص کالے یرقان سے ہوئی۔اور ان کا علاج شروع ہوا۔

پشاور جیسے شہر میں بیماری کےعلاج کے لئے بہت پیسہ چاہیئے ہوتا ہے۔جوجمع پونجھی تھی ۔وہ پہلی بار میں ہی علاج کی نذر ہوگئی۔

دوبارہ پشاور لے جانے کیلئے گاوں کے ہر گھر سے قرضہ مانگا گیا۔مگر زیادہ تر گھروں سے مایوس کن جواب ہی ملا ۔ جب کہیں سے بھی طریقہ نہ بن سکا تو قسطوں پر لیا گیا پیل کا فریج بیچ کے علاج جاری ہوا ۔

مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

ڈاکٹروں کی فیسیں اوردوائیوں کے لئے بھابھی کی سونے کی بالیاں بک گئیں ۔سونے کی انگھوٹی جو شب عروسی میں بھائی نے بڑی چاہت سے پہنائی تھی۔وہ بھی نہ بچ سکی ۔اس نے کئی بار  بھائی کو  اپنا سونے کا ہار  پیش کیا ۔مگر بھائی نےڈانٹ کے سختی سے منع کیا۔

چند مہینوں میں بھائی کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئی۔بنوں کے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ۔کہ جتنا جلدی ہو سکے مریض کو پشاور میں لے جایا جائے ۔اور گھرمیں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی ۔اس نے پڑوس میں چچا نور الدین کو ہار حوالے کیا ۔اور روتےہوئے التجا کی ۔کہ جلدی سے ہار کو بیچ کے میرے پیارے بھائی کو بچا یا جائے ۔ چچا نور الدین نے انہیں تسلی دی اور سائیکل نکال کے بازار کی طرف روانہ ہوا ۔اور وہ گھر واپس آکے پشاور جانے کے لئے تیاری کرنے لگی۔ہار کے بارے میں اس نے بھابھی کو بتایا۔تو بھابھی کا پژمردہ چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔اور ڈھیر ساری دعائیں دینے لگیں۔ 

بھائی پرانی سی کھاٹ پر نقاہت سے بے سدھ پڑا ہوا تھا۔بولنے کی سکت نہیں تھی۔ بس کھلی آنکھوں سے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔

گھنٹے بعد چچا نورالدین کی واپسی ہوئی ۔گلی میں سائیکل کھڑی کر کے جیسے ہی ان کے  گھر کے اندر داخل ہوا۔وہ بے صبری سے پیسے کا پوچھنے لگی۔چچا نورالدین نے افسوس بھرے انداز سے نفی میں سر ہلایا اور اپنی جیب سے ہار نکال کے دھیمےسے بولا

 بیٹی یہ ہار نقلی ہے سونے کا نہیں ہے

الفاظ کیا تھے ابلتا ہوا سیسہ تھا جو اس کے کان میں  زبردستی انڈیلا گیا۔بے انتہا دکھ سے اس کے منہ سےلمبی سی سسکاری نکلی۔گردن گھما کے شکوہ بھری  نگاہوں ںسے بھائی کی طرف دیکھا۔جس کی کھلی  آنکھیں جھکنے کی کوشش میں بے جان ہو چکی تھیں۔اوررخسار پر پھسلتا ہوا ایک موٹا سا آنسو معافی کا خواستگار تھا۔



Post a Comment

0 Comments