ذندگی گزارتےہوٸےجب آپ اگلےانسان کےرویےسےتھک جاٸیں عفواوردرگزرکرتےکرتےصبراوربرداشت کرتےکرتےتھک جاٸیں تواسلام میں اجازت ہےراستہ جداکردیں

 


وہ ذہانت اور حسن کا حسین امتزاج تھی. پڑھائی میں سب سے آگے

ہم نصابی سرگرمیوں میں کوئی اس کے ہم پلہ نہیں. ڈگری مکمل ہوئی تو انٹرن شپ کے لیے ایک ہاسپٹل میں فورا جاب مل گئی. انٹرن شپ ختم ہونے کے بعد وہا‌ں کی انتظامیہ نے بہت اصرار کر کے مستقل طور پر جاب دے دی.

اسی دوران چند ایک اچھے رشتے آئے. ایک جگہ پہ بات فائنل ہوگئی. بڑے چاؤ سے بیاہ کر لے گئے. جاب کے متعلق کہا کہ مرضی ہے. کرنی ہے تو ہم روکیں گے نہیں. بچی کی خوشی دیکھیں گے. نہیں کرنی تو اللہ نے بڑا رزق دیا ہے ہمیں. جاب کی ضرورت ہی کیا ہے.

شادی ہو گئی. دو تین ماہ اچھے گزر گئے تو اسے اندازہ ہوا کہ اب جاب کے ساتھ ساتھ گھر کے معاملات دیکھنا مشکل ہے. ویسے بھی شوق پورا ہو چکا تھا. جاب چھوڑنے کی بات کی تو شوہر نے سختی سے منع کر دیا کہ مجھے گھریلو خواتین نہیں پسند. جاب کرتی رہو. گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ماسی کا انتظام کرنے کا کہا گیا تو جواب ملا کہ صفائی اور برتن دھونے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے. کوئی ضرورت نہیں فضول کسی کو پیسے دینے کی.

آفس سے واپسی پر کھانا بنانا بھی اس کی ذمہ داری ٹھہری. اس کی بابت کچھ کرنے کا کہا گیا تو ٹکا سا جواب دے دیا گیا کہ ہم خاندانی لوگ ہیں. باورچی خانے میں گھر کی خاتونِ خانہ کی ہی سربراہی ہوتی ہے. وہ ہی کھانا پکائے گی.

وقت گزرا، معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے گئے. روز روز لڑائی جھگڑا گالم گلوچ معمول بن گیا. نوبت طلاق تک جا پہنچی. طلاق دینے سے انکار ہوا تو لڑکی نے خلع لے لی. ایک سال کے اندر اندر منگنی، بیاہ اور خلع سب ہو گیا. لوگوں نے باتیں بھی کیں کہ لڑکی میں ہی برداشت کی کمی ہوگی. ایک سال بھی نہیں ٹِکی. ماں باپ نے سمجھوتہ کرنا سکھایا ہی نہیں ہوگا.

خلع کا عرصہ گزرا تو تین چار رشتے مزید اس کی چوکھٹ پہ تھے. ایک پر پھر سے بھروسہ کر کے ماں باپ نے معاملہ اللہ کے سپرد کیا اور دوبارہ شادی کر دی. شادی کامیاب رہی. شوہر اور سسرال بہترین ملے. اب اسکا ایک بیٹا ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش باش ہے.

مجھے کل پیس سائیکالوجی (Peace psychology) میں سائیکل آف وائلنس( cycle of violence) پڑھتے ہوئے رہ رہ کر وہ یاد آئی. سائیکل آف وائلنس کو انگریزی کی اصطلاحات چھوڑ کر اگر اردو میں پڑھا جائے تو اسکا مطلب" تشدد کا چکر " بنے گا. تشدد زبان سے منفی جملے بول کر ذہنی طور پر بھی کیا جاتا ہے اور اپنے عمل سے مارپیٹ کر کے بھی. یہ ایک مستقل چلنے والا چکر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو پاتا. جب تک اس کو کوشش کر کے توڑ نہ دیا جائے. اس کی چھ سٹیجز ہوتی ہیں.

ابتدائیہ یعنی تشدد کا آغاز. اس میں ایک جھگڑے کا آغاز ہوتا ہے. دونوں فریقین کے درمیان بحث شروع ہوتی ہے اور غصہ بڑھنے لگتا ہے.

دوسرے حصے میں جو شخص تشدد کرنا چاہتا ہے، وہ کچھ دیر کے لیے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صورتحال کنٹرول کرنا چاہتا ہے. لیکن اس کا غصہ بڑھتا چلا جاتا ہے. یہ ایک بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہوتی ہے.

تیسرے درجے میں تشدد کا اظہار کر دیا جاتا ہے جس میں یا تو زبانی کلامی گالم گلوچ اور بدزبانی کی جاتی ہے. یا پھر اس کے ساتھ ہاتھوں کا استعمال بھی شامل ہو جاتا ہے اور دوسرے فریق کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.

نقصان پہنچانے کے بعد جب کچھ دیر گزر جاتی ہے تو غالب فریق کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے. اس میں وہ احساسِ جرم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود کو یہ کہنا بھی جاری رکھتا ہے کہ میں نے جو کیا ہے وہ درست کیا ہے. مجھے یہی کرنا چاہیے تھا. 

پانچویں درجے میں پہنچ کر یہ افسوس، ندامت میں بدل جاتا ہے. وہ فرد خود سے وعدہ کرتا ہے کہ جو آج ہوا وہ آئندہ نہیں ہوگا. یہ وعدہ خود سے بھی کیا جاتا ہے اور دوسرے فریق سے بھی. معافی تلافی ہوتی ہے. قسمیں کھائی جاتی ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ.

آخری درجے میں تشدد کرنے والا ایک اطمینان محسوس کرتا ہے. دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ اب میں اچھا ہو گیا ہوں. آئندہ کوئی غلط کام نہیں کروں گا.

لیکن.........!

چونکہ یہ چکر ہے تو یہ رکتا نہیں. اگلی دفعہ یا اگلے دن ہی پھر سے کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے. اور یہ سارا چکر دہرایا جاتا ہے. یہ تب تک چلتا رہتا ہے جب تک اس کا ایک فریق اس میں سے نکل کر اسے توڑ نہ ڈالے.

ہم چونکہ گھریلو تشدد کی بات کر رہے تھے، تو اس کی وجہ یہ بنتی ہے کہ اس میں مغلوب فریق باہر نکل کر اس چکر کو  توڑتا نہیں ہے. اور اس چکر کو نہ توڑنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بار معافی تلافی والے حصے پر یہ سمجھنا کہ دوسرا بندہ اب بدل گیا ہے. وہ واقعی دوبارہ کوئی غلط رویہ نہیں کرے گا.

یہیں سے چیزوں کا بگاڑ شروع ہوتا ہے اور "سب ٹھیک ہوجائے گا" والی توقع اور امید کئی بار سالوں پہ محیط ہو جاتی ہے لیکن کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو پاتا. ہر بار متاثرہ فرد کسی نہ کسی وجہ سے تشدد کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور یوں یہ چکر بھی کبھی رک نہیں پاتا. 

ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو معاف نہیں کرنا چاہیے، ضرور معاف کریں لیکن دیکھ لیں کہ معاف کرنے کی حد کہاں تک ہونی چاہیے. کہا جاتا ہے کہ جو ایک بار غلط رویہ کرتا ہے وہ دوسری بار نہیں کرتا. لیکن جو دوسری بار کرتا ہے وہ تیسری بار ضرور کرتا ہے کیونکہ یہ چیز اس کی فطرت میں موجود ہوتی ہے.

 اس لئے اس چیز کو سمجھ لیا کریں کہ کونسا رویہ کسی کی فطرت ہے اور کونسا رویہ محض غلطی ہے. کب معاف کرنا ہے، کسے معاف کرنا ہے، کتنی بار معاف کرنا ہے، یہ سب چیزیں معلوم ہونی چاہئیں. زندگی اتنی ارزاں نہیں ہوتی کہ اسے سمجھوتوں کی نذر کر دیا جائے.

اپنے ذہنی سکون کو پہلی ترجیح میں رکھیں. دنیا کی پروا کریں گے تو دنیا کبھی خوش نہیں ہونے والی. آپ کو باتیں بھی سننا پڑیں گی اور طعنے بھی سہنا پڑیں گے. طنز کے تیر بھی ملیں گے اور لہجوں کے نشتر بھی. بس ایک چیز کو زہن میں رکھیں کہ حسنِ ظن، عفوودرگزر، برداشت، صبر، تحمل، اور بے تحاشا حسن معاملہ کے بعد بھی تعلق بہتر نہ ہوسکے تو تعلق توڑنے کو حرام یا ناجائز نہیں سمجھا کریں.

 اسلام میں ایسا کوئی اصول نہیں. یہ سب معاشرے کے اصول ہیں، انہیں اسلام سے بڑھ کر ترجیح نہیں دیں. خوش باش رہیں اور بھرپور زندگی گزاریں. یہ کسی ناقدرے کے لیے ضائع کر دینے والی چیز نہیں ہے.

فِلافطین

Post a Comment

0 Comments