بیٹی کارشتہ کیسےجگہ پرکرناچاہٸےاس پرکچہ مشورہ


 مجھے کراچی سے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ جب بیٹے کی شادی کرو تو بہو ایسے گھر سے لے کر آؤ جو آپ سے تھوڑے کمزور ہوں۔ آپکا گھر، رہن سہن اور مالی حیثیت ان سے بہتر ہو۔ گمان ہے کہ وہ لڑکی سسرال آکر ملنے والی نعمتوں پر شکر گزار ہوگی۔

 اور جب بیٹی کی شادی کرو تو اپنے سے کچھ بہتر گھر میں کرو کہ وہاں جاکر میکہ ہی نہ یاد کرتی رہے اور ناشکری کے الفاظ نہ بولے کہ وہاں ہمارے گھر تو سب کچھ تھا یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ 

رشتے ناطے کرنے میں یہ فارمولا اپنا لیا جائے تو میرے خیال میں ایک اچھا مشورہ ہے۔ 

اس ضمن میں پنجاب کی نفسیات میں جانتا ہوں۔ جہاں لڑکیوں کی مائیں اپنی بیٹیاں تو واقعی ایسے گھروں میں بیاہنا چاہتی ہیں جو ان سے بہتر ہوں۔ مگر بہو بھی ایسی ہی لانا چاہتی ہیں جو ان سے بہت بہتر ہوں اور اکثریت میں نظر اس بات پر ہوتی کہ وہ دیں گے کیا۔ اور بیٹے کے لیے بڑے گھروں کے رشتے تلاش کرنے پر فوکس ہوتا۔

 اگر کوئی غریب لڑکی کا رشتہ بتایا جائے تو کہا جاتا انکا گھر کیسا ہے۔ میرا بیٹا وہاں بیٹا کیسا لگے گا۔ وہ لوگ تو گلی میں رہتے ہیں۔ اور وہ غریب لڑکی سامان جہیز نہ لے کر آسکے تو اسے جلد ہی طعنہ مل جاتا جو سامان گھر سے لیکر آئی ہوں ناں وہ استعمال کرو۔اگر آپ پنجابی ہیں تو ایسا آپ اپنے آس پاس یا اپنے ہی گھر میں دیکھ اور سن چکے ہونگے۔ 

 اور مرد اس معاملے میں خاموش تماشائی بنا ہوتا۔ جسے میں خاموشی نہیں بیغرتی کہوں گا۔ اور لڑکی کے والدین پھر جیسے تیسے قرض اٹھا کر اسے چارپائیاں بستر برتن مشینیں وغیرہ پہلا یا دوسرا بچہ ہونے کے بعد بھی دے رہے ہوتے۔ وہ بیچاری جانتی ہوتی کہ میرے والدین اس پوزیشن میں نہیں ہیں پھر اپنی جیب خرچ سے پائی پائی جوڑ کر چھوٹی موٹی استعمال کی چیز خریدتی رہتی۔ 

خاوند کی ہمدردی تو اکثریت میں اسکے ساتھ ہوتی ہے مگر وہ اپنی ماں کا منہ بند نہیں کر سکتا ہوتا۔ اور نہ اسکا باپ اپنی بیوی پر کوئی کنٹرول رکھتا ہے کہ بہو کا دل نہ جلائے۔ وہ دینے کی حیثیت رکھتے تو شادی پر ہی نہ جہیز دے چکے ہوتے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ عورتوں کے معاملات ہیں۔ حالانکہ یہ سو فیصد مردوں کے معاملات ہیں۔ اور انکو ایسی عورت کو لگام دینے کی ضرورت ہے وہ بیوی ہو یا ماں جو گھر آئی کسی غریب کی بیٹی کو اسکی غربت کا طعنہ دے اسے ہر روز یہ احساس دلائے کہ تم لیکر کچھ نہ آئی اور جاؤ لیکر آؤ۔ ماں کا ادب اپنی جگہ مگر اس غیر انسانی سلوک کو روکنا اپنی جگہ ہے۔ 

اسکے بعد میرا یقین کریں وہ لڑکی جیسے کیسے اپنا سامان جہیز پورا تو کر ہی لیتی ہے۔ سب سے پہلے اسکی نظروں سے جو اترتا وہ اسکا اپنا خاوند ہوتا ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ اور ساس کی عزت ایسے سلوک کے بعد کی جا سکنے کی توقع کون کرے گا۔ رہنا تو اس لڑکی نے ماں باپ کی عزت کی خاطر وہیں ہوتا ہے مگر رہتی ایک زندہ لاش بن کر ہے۔ 

رشتہ بیٹی کا کریں یا بیٹے کا یہ بات ضرور دیکھیں اور اس بات کی تصدیق بھی کریں کہ اس گھر میں خواتین کی حکومت تو نہیں ہے۔ بالادستی اور بڑے فیصلے مردوں کے ہاتھ ہونے پر یہ سب دیکھنے کو کم ہی ملتا ہے۔ اور جب ساس بہو کو کوئی ایسا طعنہ مارتی ہے تو اس لڑکی کا سسر اپنی بیوی کا منہ بند کرا دیتا ہے اور اسکا خاوند بھی ماں کو کہہ لیتا ہے کہ امی جو بات آپ نے آج کر لی آئندہ یہ بات کبھی نہ کیجئے گا۔ جو سامان رہتا ہے وہ ہم خود بنا لیں گے۔ اور وہ ضرورت کا سامان خرید کر لے بھی آتا ہے۔ یا بیوی کو پیسے دیتا ہے کہ تم خود خرید لو۔ 



Post a Comment

0 Comments