ہرچیززبان سےنہیں ہوتی کچہ کوعمل کرکےدیکھاناہوتاہے


 ایک بہت قریبی عزیزہ کچھ سال پہلے بیوہ ہوگئیں۔ بچے بھی کم عمر تھے۔

جب اُن کے گھر کے مرد نکاحِ ثانی کی کوشش کرنے لگے تو دبی دبی آوازیں سنائی دینے لگیں:

دوبارہ نکاح کی کیا ضرورت ہے؟

بچے رُل جائیں گے۔

بچوں کے لیے ماں کو قربانی دینی چاہیے۔

خیر، کوشش جاری رکھی گئی۔

سب سے پہلا رشتہ جو میسر آیا، وہ ایسے شخص کا تھا جو وجیہہ النظر تھا، خوش باش، پڑھا لکھا لیکن دوسری شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ رنڈوا یا طلاق کا معاملہ نہیں بلکہ پہلی بیوی بچے موجود تھے۔

مالی طور پر بھی مستحکم تھا، معاملے کا ریفرنس بھی بہت قابلِ اعتماد شخص تھا۔

لیکن؟

باپ اور بھائیوں کو تو بتانے پر رضامند تھا، نکاح میں بھی شریک کرنے پر راضی تھا لیکن ماں اور بیوی سے خفیہ رکھنا چاہ رہا تھا۔

کیوں؟

وجہ آپ کو بھی معلوم ہوگی۔

ہنگامے اور مخالفت کے ڈر سے۔

ایک شخص یتیم بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھنا چاہ رہا تھا، بیوہ لڑکی کو ازدواجی خوشیاں دینا چاہ رہا تھا لیکن ایک خاتون کی خوشیوں کی راہ میں خواتین ہی رکاوٹ تھیں۔

کہا گیا کہ صرف ماں کو بتا دو لیکن ممکن نہ ہوسکا اور رشتہ ختم ہوگیا۔

ایک اور رشتہ بھی ایسے کھٹائی میں پڑگیا۔

مرد حضرات نے اپنے حلقہ احباب میں، عزیز و اقارب سے ہر جگہ رشتے نظر میں رکھنے کا کہا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

ایک نامی گرامی دینی شخصیت کو کہا گیا جن کا حلقہ نہایت وسیع ہے لیکن وہاں سے بھی خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہ آیا۔

عام خواتین کی مخالفت تو سمجھ آتی ہے، دین سے دور ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ دین کی علمبردار خواتین کی سختی، شقاوت قلبی عام خواتین سے بھی کئی گُنا بڑھی ہوئی ہے۔

جنھوں نے معاشرے میں رہنمائی سے مشعلیں جلانی تھیں، وہ خود مشعلیں گُل کرنے میں پیش پیش ہیں۔

یقین مانیں کہ یہ مخالفت نہ ہو تو بہت سے مرد آج بھی بیوہ اور مطلقہ خواتین کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں۔

زبانی ہمدردی ہونے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔

آفاق احم

Post a Comment

0 Comments